الَّذِیۡنَ تَتَوَفّٰىہُمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ طَیِّبِیۡنَ ۙ یَقُوۡلُوۡنَ سَلٰمٌ عَلَیۡکُمُ ۙ ادۡخُلُوا الۡجَنَّۃَ بِمَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ﴿۳۲﴾

۳۲۔ جن کی روحیں فرشتے پاکیزہ حالت میں قبض کرتے ہیں (اور انہیں) کہتے ہیں: تم پر سلام ہو! اپنے (نیک) اعمال کی جزا میں جنت میں داخل ہو جاؤ۔

32۔ اس کے مقابلے میں اہل تقویٰ کو حالت احتضار میں جنت میں داخل ہونے کا حکم مل جاتا ہے۔ چنانچہ اس جگہ ایک درس آموز روایت کا خلاصہ ذکر کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔

ابو بصیر سے مروی ہے کہ میرا ایک ہمسایہ مے نوشی کی محفلیں جماتا تھا۔ میں نے ہر چند نصیحتیں کیں لیکن وہ باز نہیں آیا۔ ایک دن اس نے کہا اگر آپ اپنے مولا (امام جعفر صادق علیہ السلام ) سے میرا تعارف کرا دیں تو ممکن ہے آپ علیہ السلام کے ذریعے اللہ مجھے بچا لے۔ میں جب امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس شخص کا حال بیان کیا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: اس سے کہنا جعفر بن محمد علیہ السلام کہتے ہیں تو اس مے نوشی کو ترک کرے تو میں اللہ کے حضور تیرے لیے جنت کا ضامن بنتا ہوں۔ واپس جا کر میں نے یہ پیغام اس کو سنایا تو وہ رویا اور چلا گیا۔ کچھ دنوں بعد اس نے مجھے بلایا تو دیکھا کہ وہ اپنے گھر کے عقب میں عریاں بیٹھا ہے۔ وہ بولا: اے ابو بصیر میں نے اپنے گھر سے سب کچھ نکال دیا ہے اور میرا یہ حال ہو گیا۔ کچھ دنوں کے بعد وہ بیمار ہو گیا اور احتضار کا وقت آگیا۔ اس پر غشی طاری ہوئی، ہوش میں آیا تو کہنے لگا: اے ابو بصیر! قد وفی صاحبک لنا ۔ آپ کے مولا نے میرے ساتھ اپنا وعدہ پورا کیا۔ پھر اس کی روح پرواز کر گئی۔ چنانچہ حج کے موقع پر جب میں نے امام علیہ السلام کے گھر میں داخل ہونے کی اجازت مانگی تو مجھے دیکھتے ہی مولا نے فرمایا: اے ابو بصیر قد وفینا صاحبک ہم نے تمہارے ساتھی کے ساتھ اپنا وعدہ پورا کر دیا۔ (اصول الکافی 1: 474)