قَالَ رَبِّ بِمَاۤ اَغۡوَیۡتَنِیۡ لَاُزَیِّنَنَّ لَہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ وَ لَاُغۡوِیَنَّہُمۡ اَجۡمَعِیۡنَ ﴿ۙ۳۹﴾
۳۹۔ (ابلیس نے) کہا: میرے رب ! چونکہ تو نے مجھے بہکایا ہے (لہٰذا) میں بھی زمین میں ان کے لیے (باطل کو) ضرور آراستہ کر کے دکھاؤں گا اور سب کو ضرور بالضرور بہکاؤں گا۔
39۔ ابلیس نے اپنے بہکانے کی نسبت اللہ کی طرف دی اور اللہ تعالیٰ نے ابلیس کی بات کو رد بھی نہیں فرمایا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ ہی نے ابلیس کو گمراہ کیا ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے اللہ نے اسے گمراہ کیا ہے، خود نہیں ہوا۔ جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابلیس کو گمراہ کیا، لیکن گمراہی اس نافرمانی کے لازمی نتیجہ کے طور پر ہے جو ابلیس سے سرزد ہوئی نیز اللہ کی طرف گمراہی کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے اس کو اپنے حال پر چھوڑ دیا ہے اور جس سے اللہ اپنی رحمت کا ہاتھ اٹھاتا ہے اور اپنے حال پر چھوڑ دیتا ہے وہ گمراہی کی اتھاہ گہرائیوں میں گر جاتا ہے۔ اللہ کے خالص بندے وہ ہیں کہ جنہیں خود اللہ نے خالص بنایا ہے اور اللہ ہر کسی کو خالص نہیں بناتا، بلکہ ان لوگوں کو خالص بناتا ہے جنہوں نے اپنی ذات کو اللہ کے لیے خالص بنایا ہو۔ یعنی ذات کو بلا شرکت غیرے صرف اللہ کی بندگی کے لیے خالص کیا ہو۔