اِلٰی یَوۡمِ الۡوَقۡتِ الۡمَعۡلُوۡمِ﴿۳۸﴾

۳۸۔ معین وقت کے دن تک۔

34 تا 38۔ ابلیس کو اپنی درگارہ سے راندہ کرنے کے بعد فرمایا: تا روز قیامت تجھ پر لعنت ہے۔ شاید ابلیس نے ”تا روز قیامت“ سے یہ مفہوم اخذ کیا ہو کہ اسے قیامت تک انسان سے واسطہ پڑنے کا امکان ہے۔ یہاں سے اس نے اللہ سے مہلت مانگی۔ یہ مہلت قیامت تک کے لیے مانگی تھی، مگر ایک معلوم وقت تک کے لیے مہلت دے دی گئی۔ ابلیس کو مہلت دینے پر یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ ابلیس کو مہلت اور موقع دے کر قدرت نے اسباب ضلالت فراہم کیے۔ جواب یہ ہے کہ اولاً ابلیس کو انسانوں پر اتنا تسلط حاصل نہیں ہے کہ لوگوں کو گمراہ ہونے پر مجبور کرے۔ وہ صرف سبز باغ دکھا سکتا ہے۔ ثانیاً اللہ نے اگر ابلیس کو مہلت دی ہے اور گمراہی پھیلانے کا موقع دیا ہے تو اس کے مقابلے میں رشد و ہدایت کے بھی بہت سے اسباب فراہم کیے ہیں۔ اللہ نے انسان کو توحید کی فطرت پر پیدا کیا ہے۔ اس کی جبلت میں حق کی معرفت کی استعداد ودیعت فرمائی ہے۔ اللہ نے نفس انسانی کو نیک و بد کی سمجھ دی ہے۔ انبیاء بھیجے ہیں۔ ملائکہ بھی انسان کو راہ راست پر ڈالنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان دونوں مواقع کی موجودگی میں امتحان و آزمائش ہو سکتی ہے۔ اگر معاملات یکطرفہ ہوتے تو امتحان نامعقول اور ثواب و عقاب کا نظام ممکن نہ ہوتا۔ اس لیے انسان کو خیر و شر کے درمیان کھڑا کیا گیا ہے کہ وہ اپنے اختیار سے جسے چاہے انتخاب کرے۔