لَہٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنۡۢ بَیۡنِ یَدَیۡہِ وَ مِنۡ خَلۡفِہٖ یَحۡفَظُوۡنَہٗ مِنۡ اَمۡرِ اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوۡمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوۡا مَا بِاَنۡفُسِہِمۡ ؕ وَ اِذَاۤ اَرَادَ اللّٰہُ بِقَوۡمٍ سُوۡٓءًا فَلَا مَرَدَّ لَہٗ ۚ وَ مَا لَہُمۡ مِّنۡ دُوۡنِہٖ مِنۡ وَّالٍ﴿۱۱﴾

۱۱۔ ہر شخص کے آگے اور پیچھے یکے بعد دیگرے آنے والے پہرے دار ( فرشتے) مقرر ہیں جو بحکم خدا اس کی حفاظت کرتے ہیں، اللہ کسی قوم کا حال یقینا اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت کو نہ بدلے اور جب اللہ کسی قوم کو برے حال سے دوچار کرنے کا ارادہ کر لے تو اس کے ٹلنے کی کوئی صورت نہیں ہوتی اور نہ ہی اللہ کے سوا ان کا کوئی مددگار ہوتا ہے۔

11۔ لَہٗ مُعَقِّبٰتٌ : اصل میں جماعۃٌ معقبٰتٌ ہے۔ یعنی فرشتوں کی ایک جماعت ہے جن کے ذریعے انسان کی محافظت کا ذمہ اللہ نے لیا ہے، لیکن انسان کو اس کے اپنے اعمال و حرکات کے اثرات سے بچانے کا ذمہ نہیں لیا۔ اس میں تو انسان کا اپنا عمل تقدیر ساز ہے۔

اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ : حالات میں تغیر کی دو صورتیں ممکن ہیں: ٭اصلاح احوال کی صورت میں دوام نعمت۔ اس صورت کے بارے میں یہ آیت ایک ضابطہ قائم کرتی ہے کہ جب تک اصلاح احوال موجود ہے، اس صورت میں اللہ کوئی تبدیلی نہیں لائے گا، جب تک لوگ خود تبدیلی نہ لائیں۔ ٭فساد احوال کی صورت میں زوال نعمت۔ متعدد آیات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ ظلم کا نتیجہ ہلاکت اور گناہوں کا نتیجہ ذلت و خواری ہے۔ تاہم یہ لطف خداوندی ہے کہ اس نتیجہ کو لازمی قرار نہیں دیا بلکہ بعض حالات میں در گزر فرماتا ہے: وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللہُ النَّاسَ بِظُلْمِہِمْ مَّا تَرَكَ عَلَيْہَا مِنْ دَاۗبَّۃٍ ۔ (نحل: 61) اگر اللہ لوگوں کا ان کے ظلم پر مؤاخذہ فرماتا تو روئے زمین پر کوئی جاندار نہ چھوڑتا۔