وَ قَالَ لِلَّذِیۡ ظَنَّ اَنَّہٗ نَاجٍ مِّنۡہُمَا اذۡکُرۡنِیۡ عِنۡدَ رَبِّکَ ۫ فَاَنۡسٰہُ الشَّیۡطٰنُ ذِکۡرَ رَبِّہٖ فَلَبِثَ فِی السِّجۡنِ بِضۡعَ سِنِیۡنَ ﴿ؕ٪۴۲﴾
۴۲۔اور ان دونوں میں سے جس کی رہائی کا خیال کیا تھا (یوسف نے) اس سے کہا: اپنے مالک (شاہ مصر) سے میرا ذکر کرنا مگر شیطان نے اسے بھلا دیا کہ وہ اپنے مالک سے یوسف کا ذکر کرے، یوں یوسف کئی سال زندان میں پڑے رہے۔
42۔اس آیت میں ظَنَّ کا استعمال بہ معنی یقین ہے، جیسا کہ دیگر بعض آیات میں بھی یہ لفظ یقین کے معنی میں آیا ہے۔ رَب کے معانی میں سے ایک معنی مالک ہے۔ چنانچہ جوہری نے الصحاح میں کہا ہے رب کل شیء مالکہ ۔ ہر شئی کا رب وہی ہے جو اس کا مالک ہے۔ لہٰذا یہ لفظ جہاں حقیقی مالک اللّٰہ کے لیے استعمال ہوتا ہے وہاں اس کے دیگر معنوں میں استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ جیسا کہ لفظ اولیاء طاغوت کے لیے استعمال ہوا ہے: وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَوْلِيٰۗــــُٔــھُمُ الطَّاغُوْتُ اور اللہ کے لیے بھی اَللہُ وَلِيُّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ۔(بقرۃ :257) لہٰذا یہ اعتراض درست نہیں کہ ایک پیغمبر نے بادشاہ کو رَب کیسے کہ دیا۔
علل و اسباب کے ساتھ متوسل ہونا اخلاص و توکل کے منافی نہیں۔ لہٰذا حضرت یوسف علیہ السلام کا قید سے رہائی کے لیے وسائل و ذرائع تلاش کرنا اخلاص و توکل کے منافی نہیں ہے۔