وَ دَخَلَ مَعَہُ السِّجۡنَ فَتَیٰنِ ؕ قَالَ اَحَدُہُمَاۤ اِنِّیۡۤ اَرٰىنِیۡۤ اَعۡصِرُ خَمۡرًا ۚ وَ قَالَ الۡاٰخَرُ اِنِّیۡۤ اَرٰىنِیۡۤ اَحۡمِلُ فَوۡقَ رَاۡسِیۡ خُبۡزًا تَاۡکُلُ الطَّیۡرُ مِنۡہُ ؕ نَبِّئۡنَا بِتَاۡوِیۡلِہٖ ۚ اِنَّا نَرٰىکَ مِنَ الۡمُحۡسِنِیۡنَ﴿۳۶﴾

۳۶۔اور قید خانے میں یوسف کے ساتھ دو جوان بھی داخل ہوئے، ان میں سے ایک نے کہا: میں نے خواب میں دیکھا کہ شراب کشید کر رہا ہوں اور دوسرے نے کہا: میں نے دیکھا کہ میں اپنے سر پر روٹی اٹھائے ہوئے ہوں، پرندے اس میں سے کھا رہے ہیں، ہمیں اس کی تاویل بتا دیجئے، یقینا ہمیں آپ نیک انسان نظر آتے ہیں۔

36۔ ان دو جوانوں کو حضرت یوسف علیہ السلام کی شخصیت اور ان کے کردار کی عظمت کا علم ہو جاتا ہے اور یہ بھی علم ہو جاتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کسی جرم میں نہیں بلکہ جرم نہ کرنے کے جرم میں زندان میں ہیں۔ اس اعتماد کے بعد وہ آپ علیہ السلام سے خواب کی تعبیر پوچھتے ہیں، کیونکہ روح کی صفائی اور فکر کی طہارت کی وجہ سے حقائق پر سے پردے اٹھ جاتے ہیں۔ جس قدر روح شفاف ہو جاتی ہے پردے بھی شفاف ہو جاتے ہیں۔