قَالَ یٰنُوۡحُ اِنَّہٗ لَیۡسَ مِنۡ اَہۡلِکَ ۚ اِنَّہٗ عَمَلٌ غَیۡرُ صَالِحٍ ٭۫ۖ فَلَا تَسۡـَٔلۡنِ مَا لَـیۡسَ لَکَ بِہٖ عِلۡمٌ ؕ اِنِّیۡۤ اَعِظُکَ اَنۡ تَکُوۡنَ مِنَ الۡجٰہِلِیۡنَ﴿۴۶﴾

۴۶۔ فرمایا: اے نوح! بے شک یہ آپ کے گھر والوں میں سے نہیں ہے، یہ غیر صالح عمل ہے لہٰذا جس چیز کا آپ کو علم نہیں اس کی مجھ سے درخواست نہ کریں، میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ مبادا نادانوں میں سے ہو جائیں۔

46۔ حضرت نوح کی جس عمل پر سرزنش کی گئی ہے وہ ممکن ہے یہ ہو کہ بیٹے کا کشتی پر سوار ہونے سے انکار معصیت نہیں، کفر ہے۔

نوح کے بیٹے کے واقعے میں ان لوگوں کے نظریات کی نفی ہے جو نسلی بنیاد پر اپنے آپ کو اللہ کی پسندیدہ قوم تصور کرتے ہیں۔ شاید بائیبل میں نوح علیہ السلام کے بیٹے کا واقعہ درج نہ ہونے کی یہی وجہ ہو کہ اس سے ان کے بنیادی عقیدے کی نفی ہوتی ہے۔