وَ مَا کَانَ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنُ اَنۡ یُّفۡتَرٰی مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ وَ لٰکِنۡ تَصۡدِیۡقَ الَّذِیۡ بَیۡنَ یَدَیۡہِ وَ تَفۡصِیۡلَ الۡکِتٰبِ لَا رَیۡبَ فِیۡہِ مِنۡ رَّبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۟۳۷﴾

۳۷۔ اور ایسا نہیں ہو سکتا کہ اس قرآن کو اللہ کے سوا کوئی اور اپنی طرف سے بنا لائے بلکہ یہ تو اس سے پہلے جو (کتاب) آ چکی ہے اس کی تصدیق ہے اور تمام (آسمانی) کتابوں کی تفصیل ہے، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ رب العالمین کی طرف سے ہے۔

37۔ 38 امکان کی نفی ہے یعنی ممکن ہی نہیں کہ یہ قرآن غیراللہ کی طرف سے ہو۔ اس پر خود قرآن شاہد ہے جو سب کے سامنے ہے۔

ہٰذَا الۡقُرۡاٰنُ : اس قرآن کا کائناتی تصور، اس کے ملکوتی معانی اور ماورائے طبیعی موضوعات، الٰہیاتی حقائق پھر انسانوں کے درمیان زیر استعمال حروف و جملوں کی حدود میں رہ کر ایک اسلوب بیان کے اندر سمو دینا، ایک ناخواندہ ماحول میں پیدا ہونے والا فرد تو کیا تمام جن و انس مل کر بھی ایسا کلام پیش نہیں کر سکتے۔ اس جگہ ابوجہل کا اعتراف قابل ذکر ہے۔ وہ کہتا ہے: محمد ﷺ نے کسی انسان پر افترا نہیں باندھا تو وہ اللہ پر کیسے افترا باندھیں گے۔