قُلۡ مَنۡ یَّرۡزُقُکُمۡ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الۡاَرۡضِ اَمَّنۡ یَّمۡلِکُ السَّمۡعَ وَ الۡاَبۡصَارَ وَ مَنۡ یُّخۡرِجُ الۡحَیَّ مِنَ الۡمَیِّتِ وَ یُخۡرِجُ الۡمَیِّتَ مِنَ الۡحَیِّ وَ مَنۡ یُّدَبِّرُ الۡاَمۡرَ ؕ فَسَیَقُوۡلُوۡنَ اللّٰہُ ۚ فَقُلۡ اَفَلَا تَتَّقُوۡنَ﴿۳۱﴾
۳۱۔کہدیجئے: تمہیں آسمان اور زمین سے رزق کون دیتا ہے؟سماعت اور بصارت کا مالک کون ہے؟ اور کون ہے جو بے جان سے جاندار کو پیدا کرتا ہے اور جاندار سے بے جان کو پیدا کرتا ہے؟ اور کون امور (عالم ) کی تدبیر کر رہا ہے؟ پس وہ کہیں گے: اللہ، پس کہدیجئے: تو پھر تم بچتے کیوں نہیں ہو؟
31۔ آسمان اور زمین سے رزق دینے والا اللہ ہے۔ آسمان کا ذکر پہلے آیا، شاید اس لحاظ سے کہ انسانی ضروریات اور روزی کا اکثر حصہ آسمان کی طرف سے ہے۔ پھر زمین کا نمبر آتا ہے اَمَّنۡ یَّمۡلِکُ اور تم خود مانتے ہو کہ کون تمہارے سمع و بصر کا مالک ہے۔ آج کی جاہلیت کو بہتر پتہ چلا ہے کہ سمع و بصر کی خلقت ایسی نہیں کہ ایک چیز سے دوسری چیز اتفاقاً جڑ گئی تو سماعت اور بصارت کی قوت وجود میں آ گئی، بلکہ ان کی خلقت کے اندر تہ بہ تہ پیچیدگیوں سے پتہ چلتا ہے ان کی خلقت کے پیچھے ایک باشعور ذات کا ارادہ کارفرما ہے۔