اِنَّمَا النَّسِیۡٓءُ زِیَادَۃٌ فِی الۡکُفۡرِ یُضَلُّ بِہِ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا یُحِلُّوۡنَہٗ عَامًا وَّ یُحَرِّمُوۡنَہٗ عَامًا لِّیُوَاطِـُٔوۡا عِدَّۃَ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ فَیُحِلُّوۡا مَا حَرَّمَ اللّٰہُ ؕ زُیِّنَ لَہُمۡ سُوۡٓءُ اَعۡمَالِہِمۡ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡکٰفِرِیۡنَ﴿٪۳۷﴾

۳۷۔(حرمت کے مہینوں میں) تقدیم و تاخیر بے شک کفر میں اضافہ کرتا ہے جس سے کافروں کو گمراہ کیا جاتا ہے وہ کسی سال ایک مہینے کو حلال اور کسی سال اسے حرام قرار دیتے ہیں تاکہ وہ مقدار بھی پوری کر لیں جسے اللہ نے حرام کیا ہے اور ساتھ ہی خدا کے حرام کو حلال بھی کر لیں، ان کے برے اعمال انہیں بھلے کر کے دکھائے جاتے ہیں اور اللہ کافر قوم کو ہدایت نہیں کرتا۔

36۔37۔ اللہ کی کتاب تکوین میں مہینوں کی تعداد بارہ ہے۔ یعنی جب زمین سورج کے گرد ایک چکر پورا کر لیتی ہے تو چاند زمین کے گرد بارہ چکر لگا لیتا ہے۔ یہ ایک قدرتی اور عالمگیر جنتری ہے۔ ان بارہ مہینوں میں سے چار مہینے محرم، رجب، ذی القعدہ اور ذی الحجہ حرمت والے مہینے ہیں۔ ان میں قتل و غارت اور جنگ و خون ریزی حرام ہے۔ عرب اگرچہ بنیادی طور پر حرمت والے ان چار مہینوں میں جنگ و خونریزی کو حرام سمجھتے تھے لیکن وہ ان چار مہینوں کو کبھی اپنی خواہشات کے مطابق بدل دیتے تھے۔ مثلاً محرم میں جنگ کرنی ہو تو محرم کو ربیع الاول اور ربیع الاول کو محرم فرض کر لیتے۔ یوں حرمت والے مہینے حلال قرار دے کر جنگ کرتے تھے۔ اس عمل کو وہ نسئ کہتے تھے۔ ان کا یہ عمل اللہ کے مقرر کردہ قوانین میں دخل اندازی تھا، لہذا ان آیات میں اسے کفر قرار دے کر ممنوع قرار دیا، البتہ اگر مسلمانوں پر جنگ مسلط کی گئی تو دفاع جائز ہو گا۔ ان دو آیات سے معلوم ہوا کہ اللہ کے قوانین میں تبدیلی اور دخل اندازی کفر ہے۔ جب یہ جرم و گناہ بھلا دکھائی دے تو اللہ ایسے لوگوں کی ہدایت نہیں کرتا۔