وَ اِذۡ اَخَذَ رَبُّکَ مِنۡۢ بَنِیۡۤ اٰدَمَ مِنۡ ظُہُوۡرِہِمۡ ذُرِّیَّتَہُمۡ وَ اَشۡہَدَہُمۡ عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ ۚ اَلَسۡتُ بِرَبِّکُمۡ ؕ قَالُوۡا بَلٰی ۚۛ شَہِدۡنَا ۚۛ اَنۡ تَقُوۡلُوۡا یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ اِنَّا کُنَّا عَنۡ ہٰذَا غٰفِلِیۡنَ﴿۱۷۲﴾ۙ

۱۷۲۔ اور جب آپ کے رب نے اولاد آدم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا اور ان پر خود انہیں گواہ بنا کر (پوچھا تھا:) کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ سب نے کہا تھا: ہاں! (تو ہمارا رب ہے) ہم اس کی گواہی دیتے ہیں، (یہ اس لیے ہوا تھا کہ) قیامت کے دن تم یہ نہ کہ سکو کہ ہم تو اس بات سے بے خبر تھے۔

172۔ آیت سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ تخلیق انسان کے موقع پر اللہ نے اولاد آدم سے اپنی ربوبیت کا اقرار لیا تھا۔ ہمارے نزدیک اس کی صورت یہ ہو سکتی ہے کہ خالق نے تخلیق انسان کے موقع پر ان کی فطرت اور سرشت میں معرفت رب ودیعت فرمائی جیسا کہ انسان کی تخلیق میں کام آنے والے اربوں خلیوں کی پیدائش ایک خلیے سے ہوئی اور جو سبق ابتدائی خلیے میں موجود جین (gene) کو پڑھایا گیا ہے وہ آنے والے تمام خلیات میں بطور وراثت منتقل ہو جاتا ہے۔ انسان نے اب تک جس حد تک عالم خلیات کے اندر جھانک کر دیکھا ہے اور تخلیق و تعمیر پر مامور اس محیر العقول لشکر کی حیرت انگیز کرشمہ سازیوں کا مشاہدہ کیا ہے، اس سے یہ بات بعید از قیاس معلوم نہیں ہوتی کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی پشت سے ان کی نسل کو نکالا تھا تو نسل انسانی کی جبلت کے ابتدائی خلیے کو اپنی ربوبیت کا درس پڑھایا ہو اور پھر اس سے اس کا اقرار لیا ہو۔ چنانچہ انبیاء کی بعثت کے بارے میں حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے: لِیَسْتَادُوھُم مِیثَاقَ فِطْرَتِہِ انہیں اس لیے بھیجا تاکہ لوگوں کو اللہ کی فطرت کا عہد و میثاق یاد دلائیں۔ (نہج البلاغۃ)

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے اس بارے میں منقول ہے: ثبتت المعرفۃ فی قلوبہم ونسوا الموقف ۔ (المحاسن1 :241) یعنی لوگ واقعہ بھول گئے مگر معرفت دلوں میں نقش ہو گئی۔ ہم اپنے الفاظ میں یوں کہ سکتے ہیں: کلاس بھول گئے مگر سبق یاد ہے۔