وَ لَمَّا سُقِطَ فِیۡۤ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ رَاَوۡا اَنَّہُمۡ قَدۡ ضَلُّوۡا ۙ قَالُوۡا لَئِنۡ لَّمۡ یَرۡحَمۡنَا رَبُّنَا وَ یَغۡفِرۡ لَنَا لَنَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡخٰسِرِیۡنَ﴿۱۴۹﴾

۱۴۹۔اور جب وہ سخت نادم ہوئے اور دیکھ لیا کہ گمراہ ہو گئے ہیں تو کہنے لگے: اگر ہمارا رب ہم پر رحم نہ کرے اور ہمیں معاف نہ فرمائے تو ہم حتمی طور پر خسارے میں رہ جائیں گے۔

149۔ سُقِطَ فِیۡۤ اَیۡدِیۡہِمۡ : انتہائی ندامت کی طرف اشارہ ہے۔ بنی اسرائیل کی گمراہی کا یہ عالم تھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی صرف دس دن کی تاخیر کی وجہ سے یہ قوم گمراہ ہو گئی جبکہ حجت خدا حضرت ہارون علیہ السلام ان کے درمیان موجود تھے۔

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام کی وفات کے بعد ان کی گمراہی کا کیا عالم ہوا ہو گا۔ یکے بعد دیگرے انبیاء مبعوث ہونے کے باوجود چشم جہاں نے بنی اسرائیل کی بغاوت، سرکشی، ارتداد اور تحریف کا منظر دیکھ لیا۔