وَ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰی مُوۡسٰۤی اَنۡ اَلۡقِ عَصَاکَ ۚ فَاِذَا ہِیَ تَلۡقَفُ مَا یَاۡفِکُوۡنَ﴿۱۱۷﴾ۚ
۱۱۷۔ اور ہم نے موسیٰ کی طرف وحی کی کہ اپنا عصا پھینک دیں، چنانچہ اس نے یکایک ان کے خود ساختہ جادو کو نگلنا شروع کیا۔
117۔ ہم نے پہلے بھی بتایا ہے کہ معجزہ قانون طبیعت کی عام دفعات سے ہٹ کر ہوتا ہے البتہ معجزات کے اپنے ناقابل تسخیر علل و اسباب ضرور ہوتے ہیں۔ جو لوگ معجزات کو خارق عادت نہیں بلکہ قانون طبیعت کی عام دفعات کے دائرے میں داخل سمجھتے ہیں وہ دراصل اللہ کو نہ صرف فاعل مختار نہیں مانتے بلکہ ان کے نزدیک اللہ سے امور اس طرح سرزد ہوتے ہیں جس طرح آگ سے حرارت اور پانی سے رطوبت صادر ہوتی ہے۔
جو لوگ معجزات کو قانون طبیعت سے بالاتر نہیں سمجھتے وہ فاعل مختار اللہ کو نہیں بلکہ ایک غیر شعوری فاعل طبیعیت کو خدا مانتے ہیں۔
اگر اللہ بے جان مادے سے عام طریقے سے اژدھا بنا سکتا ہے تو فوراً بھی بنا سکتا ہے کیونکہ عام طریقے کا خالق بھی اللہ ہے اور وہ اپنے کسی عمل میں عادت اور زمانے کا محتاج نہیں ہے۔