ثُمَّ بَعَثۡنَا مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ مُّوۡسٰی بِاٰیٰتِنَاۤ اِلٰی فِرۡعَوۡنَ وَ مَلَا۠ئِہٖ فَظَلَمُوۡا بِہَا ۚ فَانۡظُرۡ کَیۡفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الۡمُفۡسِدِیۡنَ﴿۱۰۳﴾

۱۰۳۔پھر ان رسولوں کے بعد ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیوں کے ساتھ فرعون اور اس کے سرکردہ لوگوں کی طرف بھیجا تو انہوں نے ان نشانیوں (کے انکار) کے سبب (اپنے اوپر) ظلم کیا پھر دیکھ لو مفسدوں کا کیا انجام ہوا۔

103۔ موجودہ ترتیب کے مطابق یہ پہلا مکی سورہ ہے جس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا خصوصیت کے ساتھ ذکر ہوا ہے۔ قرآن مجید میں 130 مرتبہ سے زیادہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ذکر آیا ہے۔ اس خصوصیت کے چند اسباب ہیں:

٭ قدیم انسانی تاریخ کے اہم ابواب حضرت ابراہیم علیہ السلام سے لے کر حضرت مسیح علیہ السلام تک کے زمانے میں رقم ہوئے۔ حق و باطل کا سب سے طولانی جہاد بنی اسرائیل کے دور میں ہوا اور اس صبر آزما جہاد کے میر کارواں حضرت موسیٰ علیہ السلام تھے۔ ٭ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دور میں جہاں تمدن و ترقی کا ایک اہم مرحلہ طے ہوا تھا وہاں کفر و شرک نے بھی ایک مستحکم نظام بنا لیا تھا جو اَنَا رَبُّکُمُ الۡاَعۡلٰی ﴿۫﴾ کا دعویدار تھا۔ اس کے مقابلے میں توحید پرست لوگ مظلوم و محروم ہو گئے تھے۔ ٭ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا تعلق ایک محروم اور ضعیف طبقے سے تھا جس کو زندہ رہنے کا حق حاصل نہ تھا۔ ان کی نسل کشی ہوتی تھی۔ ایسے مظلوم طبقے کا ایک فرد اپنے زمانے کی بڑی طاقت کا مقابلہ کرتا ہے۔

رسول کریم ﷺ کا تعلق بھی ایسے ہی خاندان سے تھا۔ لوگ آپ ﷺ کو عبد اللہ کا یتیم کہ کر پکارتے تھے۔ ٭حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ایک جامع نظام حیات اور ایک کامل شریعت عنایت ہوئی، اور ایک عظیم امت کی تشکیل عمل میں آئی جس نے روئے زمین کا نقشہ بدل کر رکھ دیا۔ جیسا کہ رسول کریم ﷺ کو ایک جامع نظام حیات اور ایک ابدی شریعت عنایت ہوئی اور ایک عظیم امت کی تشکیل عمل میں آئی، جس نے نہ صرف زمین کا نقشہ بدل دیا بلکہ انسانیت کو تہذیب و تمدن سکھایا اور تسخیر کائنات کا راستہ کھول دیا۔٭ انسانی تاریخ کے اس دور میں لکھے گئے اوراق میں ایسے اسباق ملتے ہیں جو آنے والی تمام توحیدی تحریکوں اور مظلوم قوموں کے لیے مشعل راہ ہیں۔ بنی اسرائیل کو مختلف آزمائشوں سے گزارنے کے بعد اللہ نے امامت عظمیٰ کے منصب پر فائز کیا۔مگر بنی اسرائیل نے کس احساس ذمہ داری کا ثبوت دیا؟ انہیں تاریخ انبیاء علیہ السلام میں سب سے زیادہ معجزات دیے گئے۔ اس کے باوجود انہوں نے اپنے پیغمبر کی آواز پر کہاں تک لبیک کہا؟ آخر میں ان سے امامت عظمیٰ کا منصب کیسے سلب ہوا؟ وغیرہ۔

فرعون: قدیم مصری اپنے رب اعلیٰ سورج کو رَّعُ کہتے تھے اور حکمرانوں کو رَّعُ کا مظہر سمجھتے تھے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ جس فرعون کے گھر میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پرورش پائی وہ رعمیس دوم تھا اور جس فرعون کی طرف حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھیجا گیا وہ رعمیس دوم کا بیٹا منفتاح تھا۔