اَوۡ تَقُوۡلُوۡا لَوۡ اَنَّاۤ اُنۡزِلَ عَلَیۡنَا الۡکِتٰبُ لَکُنَّاۤ اَہۡدٰی مِنۡہُمۡ ۚ فَقَدۡ جَآءَکُمۡ بَیِّنَۃٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ ہُدًی وَّ رَحۡمَۃٌ ۚ فَمَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنۡ کَذَّبَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَ صَدَفَ عَنۡہَا ؕ سَنَجۡزِی الَّذِیۡنَ یَصۡدِفُوۡنَ عَنۡ اٰیٰتِنَا سُوۡٓءَ الۡعَذَابِ بِمَا کَانُوۡا یَصۡدِفُوۡنَ﴿۱۵۷﴾

۱۵۷۔ یا تم یوں کہتے: اگر ہم پر بھی کتاب نازل ہو جاتی تو ہم ان سے بہتر ہدایت لیتے،پس اب تمہارے رب کی طرف سے واضح دلیل، ہدایت اور رحمت تمہارے پاس آ گئی ہے، پس اس کے بعد اس سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو اللہ کی نشانیوں کی تکذیب کرے اور ان سے منہ موڑے؟ جو لوگ ہماری آیات سے منہ موڑ لیتے ہیں انہیں ہم اس روگردانی پر بدترین سزا دیں گے۔

157۔ عربوں میں عموماً اور قبیلہ قریش میں خصوصاً ایک احساس برتری تھا کہ اقوام عالم میں ذہانت و لیاقت میں ہمارا کوئی ہم پلہ نہیں ہے۔ لہٰذا اگر یہود و نصاریٰ کی طرح ہماری طرف بھی کوئی ہدایت کی کتاب آ جاتی تو ہم دوسروں سے زیادہ اس ہدایت سے فائدہ اٹھاتے۔ اس عذر کو قطع کرتے ہوئے فرمایا: لو اب تمہاری طرف ایسی کتاب آئی ہے جو سابقہ کتابوں سے زیادہ ہدایت و رحمت اپنے اندر رکھتی ہے۔ اس کتاب میں شریعت کے اصول،احکام، آداب دعوت، فضائل و اخلاق وغیرہ کی ایسے انمول تعلیمات ہیں جن سے روگردانی کی صورت میں عذاب بھی اتنا ہی سخت ہو گا جتنی حجت عظیم تھی۔