قُلۡ ہَلُمَّ شُہَدَآءَکُمُ الَّذِیۡنَ یَشۡہَدُوۡنَ اَنَّ اللّٰہَ حَرَّمَ ہٰذَا ۚ فَاِنۡ شَہِدُوۡا فَلَا تَشۡہَدۡ مَعَہُمۡ ۚ وَ لَا تَتَّبِعۡ اَہۡوَآءَ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا وَ الَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡاٰخِرَۃِ وَ ہُمۡ بِرَبِّہِمۡ یَعۡدِلُوۡنَ﴿۱۵۰﴾٪

۱۵۰۔(ان سے) کہدیجئے: اپنے گواہوں کو لے آؤ جو اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ نے اس چیز کو حرام کیا ہے، پھر اگر وہ (خود ساختہ) شہادت دیں بھی تو آپ ان کے ساتھ گواہی نہ دیں اور آپ ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کریں جو ہماری آیات کو جھٹلاتے ہیں اور جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور دوسروں کو اپنے رب کے برابر سمجھتے ہیں۔

15۔ اگر تمہارا یہ دعویٰ درست ہے کہ ان چیزوں کو اللہ نے حرام کیا ہے تو گواہ پیش کرو۔ گواہ وہ ہوتا ہے کہ جس کے سامنے یہ عمل انجام دیا گیا ہو۔ ایسا کرنا ان کے لیے ناممکن ہے۔ اسی لیے اس امر کو امر تعجیزی کہتے ہیں۔ یعنی گواہ پیش کرو کا حکم صرف اس لیے ہو رہا ہے کہ اس عمل کا ناممکن ہونا اور نتیجتاً اس دعوے کا باطل ہونا ثابت ہو جائے۔ اگر یہ لوگ کوئی خود ساختہ گواہی پیش کرتے ہیں تو یہ گواہی دو باتوں کی وجہ سے مسترد ہو گی: اول یہ کہ یہ لوگ خواہشات کے غلام ہیں، حقائق کا ان سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ دوم یہ کہ یہ لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے کیونکہ ایمان بہ آخرت انسان کو جھوٹ بولنے اور گناہ کا ارتکاب کرنے سے روک سکتا ہے۔