قُلۡ فَلِلّٰہِ الۡحُجَّۃُ الۡبَالِغَۃُ ۚ فَلَوۡ شَآءَ لَہَدٰىکُمۡ اَجۡمَعِیۡنَ﴿۱۴۹﴾

۱۴۹۔کہدیجئے: اللہ کے پاس نتیجہ خیز دلائل ہیں،پس اگر وہ چاہتا تو تم سب کو (جبراً) ہدایت دے دیتا۔

148۔149۔ مشرکین اپنے شرک و کفر کی توجیہ پیش کریں گے کہ ہم اللہ کی مشیت کے مطابق شرک کر رہے ہیں ورنہ اگر اللہ ہم سے شرک نہ چاہتا تو ممکن نہ تھا کہ ہم شرک کا عمل انجام دیتے۔ لہذا ہم جو کچھ کر رہے ہیں وہ اللہ کی طرف سے ہے۔

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ تم سے پہلے کفر و شرک کرنے والے یہی طریقہ تکذیب اختیار کرتے رہے ہیں جو سراسر ظن و تخمین پر مبنی ہے۔ تم نے مشیت سے جبر مراد لیا ہے۔ اگر اللہ تربیت و تعلیم استدلال و تعقل کا راستہ چھوڑ کر جبر کا راستہ اختیار فرماتا تو تم سب کو ہدایت دے دیتا جیسے تمہارے جسمانی نظام کو قائم رکھنے کے لیے قلب و جگر کو ہدایت دے رکھی ہے لیکن اس مسلوب الاختیار ہدایت سے غرض خلقت اور مقصد شریعت پورا نہیں ہوتا۔

اللہ کی مشیت کو اس کی رضامندی سے تعبیر کرنا ایک نہایت فحش غلطی ہے جس میں کچھ اسلامی مذاہب بھی مبتلا ہیں۔ مشیت الہٰی یہ ہے کہ انسان خود مختار اور اپنے ارادے میں آزاد ہے تاکہ اس کو امتحان میں ڈالنا، اس کو مکلف بنانا اور اس کے اعمال کے لیے ثواب و عقاب مرتب کرنا درست رہ جائے۔ انسان اللہ کی اس عدم جبر کی مشیت کے تحت خود مختار ہے۔ اسی خود مختاری کے تحت گناہ بھی کرتا ہے اور ثواب کا کام بھی کرتا ہے۔ اچھے عمل کو اس نے پسند کیا ہے اور گناہ کو نا پسند کیا ہے۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے قُلۡ فَلِلّٰہِ الۡحُجَّۃُ الۡبَالِغَۃُ کے ذیل میں روایت ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا: اللہ تعالیٰ قیامت کے روز فرمائے گا میرے بندے! کیا تو علم رکھتا تھا ؟ اگر کہے ہاں تو فرمائے گا تو تو نے اپنے علم پر عمل کیوں نہیں کیا اور اگر کہے نہیں تو فرمائے گا تو تو نے سیکھا کیوں نہیں تاکہ عمل کر سکے۔ یہی حجت بالغہ ہے۔