قُلۡ لَّاۤ اَقُوۡلُ لَکُمۡ عِنۡدِیۡ خَزَآئِنُ اللّٰہِ وَ لَاۤ اَعۡلَمُ الۡغَیۡبَ وَ لَاۤ اَقُوۡلُ لَکُمۡ اِنِّیۡ مَلَکٌ ۚ اِنۡ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوۡحٰۤی اِلَیَّ ؕ قُلۡ ہَلۡ یَسۡتَوِی الۡاَعۡمٰی وَ الۡبَصِیۡرُ ؕ اَفَلَا تَتَفَکَّرُوۡنَ﴿٪۵۰﴾
۵۰۔کہدیجئے: میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب جانتا ہوں اور نہ ہی میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں، میں تو صرف اس حکم کی پیروی کرتا ہوں جس کی میری طرف وحی ہوتی ہے، کہدیجئے: کیا اندھا اور بینا برابر ہو سکتے ہیں؟کیا تم غور نہیں کرتے؟
50۔ خزانۂ الہٰی سے ممکن ہے وہ منبع فیض مراد ہو جس سے تمام موجودات ان کے وجود سمیت مستفیض ہو رہی ہیں۔ اسی کو خزائن رحمت سے بھی تعبیر کیا گیا ہے۔ اسی مصدر فیض سے پوری کائنات وجود میں آئی وَلِلہِ خَزَاۗىِٕنُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ (منافقون: 7) آسمانوں اور زمین کے خزانوں کا مالک اللہ ہی ہے۔ مشرکین کا خیال تھا کہ اللہ کی طرف سے کوئی رسول آتا ہے تو اسے انسانوں کی طرح بھوک و پیاس سے متاثر نہیں ہونا چاہیے۔ وہ رسول ایسا ہونا چاہیے کہ وہ جب حکم دے تو پہاڑ سونے کا ہو جائے، اس کے ایک اشارے سے دنیا کی ساری نعمتیں سمٹ کر سامنے آ جائیں۔ یہ کیسا رسول ہوا کہ اس کو اپنی ضرورتوں کے لیے لوگوں سے قرض لینے تک کی نوبت آ جائے۔ مشرکین کہتے ہیں کہ ہم آپ پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک آپ ہمارے لیے زمین سے چشمہ جاری نہیں کرتے یا آپ کے لیے کھجوروں اور انگوروں کا کوئی ایسا باغ ہو جس کے درمیان نہریں بہ رہی ہوں یا جیسا کہ آپ خیال کرتے ہیں آسمان کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے ہم پر گرا دیں یا اللہ اور فرشتوں کو ہمارے سامنے لے آئیں یا خود آپ کے لیے سونے کا کوئی گھر ہو۔ (اسراء: 93)
علم غیب کی دو قسمیں ہیں: ایک ذاتی علم جو کسی تعلیم اور وحی کے بغیر بذات خود معلوم ہو۔ یہ علم صرف اللہ کے ساتھ مختص ہے۔ دوسرا وہ علم جو وحی اور تعلیم کے ذریعے کسی ذات میں آ جائے۔ یہ علم غیب اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں کو عنایت فرماتا ہے: ذٰلِکَ مِنۡ اَنۡۢبَآءِ الۡغَیۡبِ نُوۡحِیۡہِ اِلَیۡکَ ۔ (آل عمران: 44) یہ غیب کی خبریں ہم آپ کو وحی کے ذریعے بتا رہے ہیں۔