وَّ لَاُضِلَّنَّہُمۡ وَ لَاُمَنِّیَنَّہُمۡ وَ لَاٰمُرَنَّہُمۡ فَلَیُبَتِّکُنَّ اٰذَانَ الۡاَنۡعَامِ وَ لَاٰمُرَنَّہُمۡ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلۡقَ اللّٰہِ ؕ وَ مَنۡ یَّتَّخِذِ الشَّیۡطٰنَ وَلِیًّا مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ فَقَدۡ خَسِرَ خُسۡرَانًا مُّبِیۡنًا ﴿۱۱۹﴾ؕ
۱۱۹۔ اور میں انہیں ضرور گمراہ کروں گا اور انہیں آرزوؤں میں ضرور مبتلا رکھوں گا اور انہیں حکم دوں گا تو وہ ضرور جانوروں کے کان پھاڑیں گے اور میں انہیں حکم دوں گا تو وہ اللہ کی بنائی ہوئی صورت میں ضرور رد و بدل کریں گے اور جس نے اللہ کے سوا شیطان کو اپنا سرپرست بنا لیا پس یقینا وہ صریح نقصان میں رہے گا۔
119۔ اس آیت میں شیطان کے گمراہ کن حربوں کا ذکر ہے: 1۔ شیطان بندوں کو آرزوؤں میں الجھا کر یاد خدا سے غافل کر دیتا ہے۔ 2۔ وہ توہمات میں ڈال کر اللہ کی انسان ساز دستور حیات شریعت سے لوگوں کو دور کرتا ہے کہ اونٹنی جب پانچ یا دس بچے جنم لیتی تو اس کے کان پھاڑ کر دیوتا کے نام کر دیتے اور اس سے کام لینے کو حرام سمجھتے تھے۔ 3۔ وہ اللہ کی بنائی ہوئی صورت اور خدائی ساخت میں تبدیلی کر دیتا ہے۔ اس آیت سے کلوننگ کی حرمت پر استدلال کیا جاتا ہے: کلوننگ خلق اللہ میں تغیر ہے۔ کیونکہ اللہ تو جرثومۂ پدر اور تخم مادر نُّطْفَۃٍ اَمْشَاجٍ (مخلوط نطفہ) سے انسان کی تخلیق فرماتا ہے۔ جبکہ کلوننگ میں ماں باپ کے اشتراک کے بغیر یکطرفہ طور پر کسی ایک کے سیل سے انسانی تخلیق کا عمل انجام پاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں کلوننگ میں جنسی سیل (cell) کی جگہ جسمانی سیل سے کام لیا جاتا ہے۔ کیا یہ عمل جائز ہے یا نہیں؟ تفصیل کے لیے ہماری تفسیر الکوثر جلد دوم صفحہ 372 کا مطالعہ کیجیے۔