وَ لَوۡ لَا فَضۡلُ اللّٰہِ عَلَیۡکَ وَ رَحۡمَتُہٗ لَہَمَّتۡ طَّآئِفَۃٌ مِّنۡہُمۡ اَنۡ یُّضِلُّوۡکَ ؕ وَ مَا یُضِلُّوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡفُسَہُمۡ وَ مَا یَضُرُّوۡنَکَ مِنۡ شَیۡءٍ ؕ وَ اَنۡزَلَ اللّٰہُ عَلَیۡکَ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ وَ عَلَّمَکَ مَا لَمۡ تَکُنۡ تَعۡلَمُ ؕ وَ کَانَ فَضۡلُ اللّٰہِ عَلَیۡکَ عَظِیۡمًا﴿۱۱۳﴾ ۞ؓ
۱۱۳۔ اور (اے رسول) اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت آپ کے شامل حال نہ ہوتی تو ان میں سے ایک گروہ نے تو آپ کو غلطی میں ڈالنے کا فیصلہ کر لیا تھا حالانکہ وہ خود کو ہی غلطی میں ڈالتے ہیں اور وہ آپ کا تو کوئی نقصان نہیں کر سکتے اور اللہ نے آپ پر کتاب و حکمت نازل کی اور آپ کو ان باتوں کی تعلیم دی جنہیں آپ نہیں جانتے تھے اور آپ پر اللہ کا بڑا فضل ہے۔
113۔ وَ عَلَّمَکَ : اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ کی طرف سے کتاب و حکمت کے علاوہ بھی تعلیم کے لیے رسول اللہ ﷺ کے پاس خصوصی ذرائع موجود تھے، جن کی وجہ سے رسول خدا ﷺ علم و معرفت اور کشف حقائق کی اس منزل پر فائز تھے جن کے بعد خلاف عصمت کسی غلطی کے سرزد ہونے کا امکان نہیں رہتا۔ چنانچہ علم و یقین کا نتیجہ عصمت ہے۔ البتہ علم و یقین حاصل ہونے کے بعد عصمت قائم رکھنے پر مجبور بھی نہیں ہوتے، بلکہ یہاں عزم و ارادہ، نفس کی پاکیزگی اور محبت الٰہی کی وجہ سے اپنے اختیار سے عصمت پر قائم رہتے ہیں۔ اسی وجہ سے معصوم کی عصمت و فضیلت ثابت ہوتی ہے۔