فَاسۡتَجَابَ لَہُمۡ رَبُّہُمۡ اَنِّیۡ لَاۤ اُضِیۡعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنۡکُمۡ مِّنۡ ذَکَرٍ اَوۡ اُنۡثٰی ۚ بَعۡضُکُمۡ مِّنۡۢ بَعۡضٍ ۚ فَالَّذِیۡنَ ہَاجَرُوۡا وَ اُخۡرِجُوۡا مِنۡ دِیَارِہِمۡ وَ اُوۡذُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِیۡ وَ قٰتَلُوۡا وَ قُتِلُوۡا لَاُکَفِّرَنَّ عَنۡہُمۡ سَیِّاٰتِہِمۡ وَ لَاُدۡخِلَنَّہُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ ۚ ثَوَابًا مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ ؕ وَ اللّٰہُ عِنۡدَہٗ حُسۡنُ الثَّوَابِ﴿۱۹۵﴾

۱۹۵۔پس ان کے رب نے ان کی دعا قبول کر لی ( اور فرمایا:) میں تم میں سے کسی عمل کرنے والے کا عمل ضائع نہیں کروں گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت، تم ایک دوسرے کا حصہ ہو، پس جنہوں نے ہجرت کی اور جو اپنے گھروں سے نکالے گئے اور میری راہ میں ستائے گئے نیز جو لڑے اور مارے گئے ان سب کے گناہ ضروربالضرور دور کروں گا اور انہیں ایسے باغات میں ضرور بالضرور داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی، یہ ہے اللہ کی طرف سے جزا اور اللہ ہی کے پاس بہترین جزا ہے۔

195۔ قبولیتِ دعا کے ساتھ فرمایا: تمہارا عمل ضائع نہیں جائے گا اور قبولِ اعمال کے حوالے سے عمل کنندہ میں کوئی تفریق نہیں ہوتی۔ مرد ہو یا عورت، اللہ کے نزدیک دونوں کو بلحاظ عمل یکساں حیثیت حاصل ہے۔ مخلوق اور بندہ ہونے میں یہ دونوں یکساں ہیں، پھر تخلیق و تربیت میں مرد و زن میں سے کوئی بھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہے۔ اکثر قدیم قوموں کا نظریہ یہ تھا کہ عورت کا عمل اللہ کے نزدیک قابل قبول نہیں ہے۔ یونانی عورت کو شیطانی نجاست سے تعبیر کیا کرتے تھے۔ بعض رومیوں اور یونانیوں کا خیال تھا کہ عورت نفس کی مالکہ نہیں ہے جبکہ مرد غیر مادی نفس انسانی کا مالک ہے۔ فرانس کے ادارﮤ تحقیقات نے سن 586ء میں طویل بحث و تمحیص کے بعد فیصلہ کیا کہ عورت بھی انسان ہے تاہم اسے مرد کی خدمت کے لیے خلق کیا گیا ہے۔ ایک سو سال قبل انگلینڈ میں عورت کو انسانی معاشرے کا حصہ نہیں سمجھتے تھے۔ (المیزان:4: 90)