وَ لَا تَنۡکِحُوا الۡمُشۡرِکٰتِ حَتّٰی یُؤۡمِنَّ ؕ وَ لَاَمَۃٌ مُّؤۡمِنَۃٌ خَیۡرٌ مِّنۡ مُّشۡرِکَۃٍ وَّ لَوۡ اَعۡجَبَتۡکُمۡ ۚ وَ لَا تُنۡکِحُوا الۡمُشۡرِکِیۡنَ حَتّٰی یُؤۡمِنُوۡا ؕ وَ لَعَبۡدٌ مُّؤۡمِنٌ خَیۡرٌ مِّنۡ مُّشۡرِکٍ وَّ لَوۡ اَعۡجَبَکُمۡ ؕ اُولٰٓئِکَ یَدۡعُوۡنَ اِلَی النَّارِ ۚۖ وَ اللّٰہُ یَدۡعُوۡۤا اِلَی الۡجَنَّۃِ وَ الۡمَغۡفِرَۃِ بِاِذۡنِہٖ ۚ وَ یُبَیِّنُ اٰیٰتِہٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمۡ یَتَذَکَّرُوۡنَ﴿۲۲۱﴾٪

۲۲۱۔ اور تم مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں، کیونکہ مومنہ لونڈی مشرک عورت سے بہتر ہے اگرچہ وہ تمہیں بہت پسند ہو نیز (مومنہ عورتوں کو) مشرک مردوں کے عقد میں نہ دینا جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں، کیونکہ ایک مومن غلام مشرک مرد سے بہتر ہے خواہ وہ (مشرک) تمہیں پسند ہو، کیونکہ وہ جہنم کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ اپنے حکم سے جنت اور مغفرت کی طرف بلاتا ہے اور اپنی نشانیاں لوگوں کے لیے کھول کر بیان کرتا ہے شاید کہ وہ نصیحت حاصل کریں۔

221۔ فطری تقاضوں اور اسلامی اقدار کی رو سے ازدواجی زندگی کی تشکیل کی ایک بنیادی شرط کفو ہونا۔ اسلامی اقدار کے مطابق مقام و منزلت اور مرتبے کے معاملے میں رنگ، نسل، علاقہ اور مال و دولت وغیرہ کو کوئی دخل حاصل نہیں ہے، بلکہ کفو (ہم پلہ) ہونے کے لیے ضروری ہے کہ دونوں ایک ہی امت کے فعال اور ایک ہی مشن کے متحرک کارکن ہوں تاکہ ایک متوازن اور پرسکون ماحول میں ایک نظریاتی کنبہ تشکیل پا سکے۔ مؤمن کے لیے مشرک کفو نہیں ہو سکتا کیونکہ ان دونوں کا مقصدِ حیات اور منزل ایک نہیں ہے۔ شرک انسان کو ہلاکت اور جہنم کی طرف بلاتا ہے جب کہ مومن کا خدا جنت اور مغفرت کی طرف بلاتا ہے۔ ان دونوں میں نور اور ظلمت کا تضاد پایا جاتا ہے، البتہ اہل کتاب کا حکم اس سے جدا ہے۔