وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّقُوۡلُ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنۡیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الۡاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ﴿۲۰۱﴾ ۞ؒ
۲۰۱۔اور ان میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں: ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بہتری اور آخرت میں بھی بہتری عطا کر نیز ہمیں آتش جہنم سے بچا۔
201۔ اس آیۂ شریفہ سے یہ تعلیم ملتی ہے کہ دنیا و آخرت کے معاملے میں متوازن مؤقف اختیار کرنا چاہیے۔ انسان نہ تو صرف دنیا کا طلبگار ہو اور نہ ہی ترک دنیا کر کے فقط آخرت کا طالب رہے: لَا رَھْبَانِیَّۃَ فِی الْاِسْلَامِ ۔ (الوسائل 14: 155) اسلام میں ترک دنیا کا تصور نہیں ہے۔ دنیاوی زندگی کے بارے میں اسلام کا مؤقف یہ ہے کہ دنیا کو اگر صرف برائے دنیا اختیار کیا جائے اور اس حیات فانی کو ہی اپنا مقصد حیات بنا لیا جائے تو یہ دنیا داری ہے اور دنیا داروں کو آخرت میں کچھ نہیں ملے گا۔ دنیاوی زندگی حقیقی مقصد حیات نہیں بلکہ یہ تو آخرت کی ابدی سعادت کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے : اَلدُّنْیَا مَزْرَعَۃُ الْآخِرَۃِ ۔ (عوالی اللآلی 1:267) دنیا آخرت کے لیے کھیتی ہے۔