وَدَّ کَثِیۡرٌ مِّنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ لَوۡ یَرُدُّوۡنَکُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ اِیۡمَانِکُمۡ کُفَّارًا ۚۖ حَسَدًا مِّنۡ عِنۡدِ اَنۡفُسِہِمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمُ الۡحَقُّ ۚ فَاعۡفُوۡا وَ اصۡفَحُوۡا حَتّٰی یَاۡتِیَ اللّٰہُ بِاَمۡرِہٖ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ﴿۱۰۹﴾ ۞ؓ

۱۰۹۔ (مسلمانو!) اکثر اہل کتاب حق واضح ہو جانے کے باوجود (محض) اپنے بغض اور حسد کی بنا پر یہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح ایمان کے بعد تمہیں دوبارہ کافر بنا دیں، پس آپ درگزر کریں اور نظر انداز کر دیں یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ بھیج دے، بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

109۔ چونکہ دل میں زوال نعمت کی آرزو رکھنا حسد کہلاتا ہے، بنا بریں اس آیت سے پتہ چلا کہ اہل کتاب، اسلام کو مسلمانوں کے لیے ایک نعمت سمجھتے ہیں۔ وہ دل سے اس کی حقانیت کے معترف ہیں کیونکہ اسلام اگر حق نہ ہوتا تو نعمت نہ سمجھا جاتا اور اس سے حسد کوئی معنی نہ رکھتا۔

یہ فیصلہ بعد میں آنے والے کسی حکم کی طرف اشارہ ہے۔ چنانچہ آیہ قتال میں حکم آ گیا۔