یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَقُوۡلُوۡا رَاعِنَا وَ قُوۡلُوا انۡظُرۡنَا وَ اسۡمَعُوۡا ؕ وَ لِلۡکٰفِرِیۡنَ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ﴿۱۰۴﴾
۱۰۴۔ اے ایمان والو!راعنا نہ کہا کرو بلکہ (اس کی جگہ) [انظرنا] کہا کرو اور (رسول کی باتیں) توجہ سے سنا کرو اور کافروں کے لیے تو دردناک عذاب ہے۔
104۔ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا : قرآن مجید میں تقریباً اسی (80) مقامات پر ان الفاظ میں مومنین سے خطاب کیا گیا ہے۔ یہ سب آیات مدنی ہیں۔ علامہ طباطبائی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک خطاب کا یہ انداز اس امت کے لیے ایک اعزاز ہے، ورنہ دوسری امتوں کو قرآن نے لفظ قوم سے یاد کیا ہے۔ جیسے قوم نوح، قوم ہود اور قوم عاد وغیرہ۔
ابو نعیم نے الحلیہ میں ابن عباس سے روایت کی ہے کہ رسول خدا ﷺ نے فرمایا:
مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ اٰیَۃً و فِیْھَا یَا اَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِلّٰا وَ عَلِیٌّ رَاْسُہَا و اَمِیْرُھَا ۔ یعنی خدا نے يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا کے ساتھ جو بھی آیت نازل کی ہے حضرت علی علیہ السلام اس کے سردار اور امیر ہیں۔
رسول خدا ﷺ جب اسلامی احکام بیان فرماتے تو اکثر ایسا ہوتا کہ بعض افراد سن یا سمجھ نہیں پاتے تھے۔ اس وقت وہ حضور ﷺ کی توجہ مبذول کرانے کے لیے کہتے: رَاعِنَا یعنی ہماری رعایت فرمائیں کہ ہم سمجھ نہیں سکے۔ ہمارا لحاظ فرمائیے اور دوبارہ ارشاد فرمائیے۔
بعض یہودی بھی ان علمی مجالس میں شریک ہوتے تھے۔ وہ اس لفظ کو شرارتاً حضور ﷺ کی شان میں توہین کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ بعض مفسرین کے نزدیک وہ رَاعِنَا کو اَلرَّعُوْنَۃُ کے حوالے سے احمق اور بے وقوف کے معنوں میں لیتے تھے اور بعض دیگر مفسرین کے مطابق وہ رَاعِنَا کی بجائے رَاعِیْنَا ”ہمارا چرواہا“ کہتے۔