قُلۡ مَنۡ کَانَ عَدُوًّا لِّجِبۡرِیۡلَ فَاِنَّہٗ نَزَّلَہٗ عَلٰی قَلۡبِکَ بِاِذۡنِ اللّٰہِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیۡہِ وَ ہُدًی وَّ بُشۡرٰی لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ﴿۹۷﴾
۹۷۔ آپ کہدیجئے: جو کوئی جبرائیل کا دشمن ہے (وہ یہ جان لے کہ) اس نے (تو) اس قرآن کو باذن خدا آپ کے قلب پر نازل کیا جو اس کی تصدیق کرنے والا ہے جو پہلے سے موجود ہے اور یہ (قرآن) ایمان والوں کے لیے ہدایت اور بشارت ہے۔
97۔ جِبۡرِیۡلَ غیر عربی لفظ ہے جو بنابر قولے جبر اور ایل سے مرکب ہے یعنی قوت خدا۔
قلب مراد صنوبری شکل کا لحمیاتی عضو نہیں ہے، بلکہ اس کی مختصر وضاحت یہ ہے کہ انسان کے اندر موجود مختلف جہتوں کے لیے جس چیز کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، اسے قلب کہتے ہیں اور یہ عقل و شعور کا بھی مرکز و محور ہے۔ قلب رسول ﷺ پر وحی نازل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ رسولِ کریم ﷺ علم حضوری کے طور پر اپنے وجود سے وحی کا ادراک کرتے تھے، نہ کہ محسوسات کی طرح صرف حواس سے یا معقولات کی طرح صرف عقل سے، بلکہ ان سے واضح تر، جیسے خود اپنے وجود کا ادراک۔ کیونکہ اگر سمعی و بصری ذرائع سے وحی کا ادراک ہوتا تو یہ وسائل جن کے پاس بھی ہوتے وہ باآسانی وحی کا ادراک کر لیتے۔