قُلۡ اِنۡ کَانَتۡ لَکُمُ الدَّارُ الۡاٰخِرَۃُ عِنۡدَ اللّٰہِ خَالِصَۃً مِّنۡ دُوۡنِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الۡمَوۡتَ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ﴿۹۴﴾
۹۴۔ کہدیجئے: اگر اللہ کے نزدیک دار آخرت دوسروں کی بجائے خالصتاً تمہارے ہی لیے ہے اور تم ( اس بات میں ) سچے بھی ہو تو ذرا موت کی تمنا کرو۔
94۔ یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ اخروی زندگی صرف انہی کے لیے مخصوص ہے، جبکہ دوسرے لوگ اس سے محروم ہوں گے اور اگر کسی یہودی کو عذاب ہو گا بھی تو صرف چند دنوں کے لیے۔ مثلاً جتنے دن گوسالہ پرستی میں گزرے ہیں، اتنے ہی عذاب کے دن ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کے اس عقیدے کے مطابق الزامی تنبیہ فرمائی کہ اگر آخرت کی زندگی اور آسودگی صرف تمہارے لیے ہی چشم براہ ہے تو اس کے حصول کی کوشش ایک طبعی اور فطری امر ہے۔ بنابرایں اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو تو ذرا موت کی تمنا کر کے تو دکھاؤ۔
اس آیت سے اللہ کے مخلص بندوں کا معیار واضح ہو جاتا ہے کہ اللہ کے مخلص بندے موت کے مشتاق اور بارگاہ پروردگار میں جانے کے لیے بے چین ہوتے ہیں۔ اللہ کے حقیقی ولی حضرت علی علیہ السلام کا فرمان ہے: وَاللّٰہِ لاَبْنُ اَبِی طَالِبٍ آنَسُ بِالْمَوْتِ مِنَ الطِّفْلِ بِثَدْیِ اُمِّہِ ۔ یعنی، قسم بخدا ! ماں کے سینے سے بچے کے انس سے زیادہ ابوطالب کا بیٹا موت سے مانوس ہے۔ (نہج البلاغہ ص 62 خ 5 خلقہ و عملہ)
دوسری جگہ فرمایا: فَوَ اللّٰہِ مَا اُبَالِیْ دَخَلْتُ اِلَی الْمَوْتِ اَوْ خَرَجَ الْمَوْتُ اِلَیَّ ۔ قسم بخدا! مجھے پرواہ نہیں کہ موت مجھ پر آ گرتی ہے یا میں موت پر جا گرتا ہوں۔ (نہج البلاغہ: خ 55)