وَ اِنۡ کُنۡتُمۡ فِیۡ رَیۡبٍ مِّمَّا نَزَّلۡنَا عَلٰی عَبۡدِنَا فَاۡتُوۡا بِسُوۡرَۃٍ مِّنۡ مِّثۡلِہٖ ۪ وَ ادۡعُوۡا شُہَدَآءَکُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ﴿۲۳﴾

۲۳۔ اور اگر تم لوگوں کو اس(کتاب)کے بارے میں شبہ ہو جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کی ہے تو اس جیسا کوئی سورہ بنا لاؤ اور اللہ کے علاوہ اپنے حامیوں کو بھی بلا لو، اگر تم سچے ہو۔

23۔ انسانیت کی بلوغت سے پہلے انبیاء کو محسوس معجزے دیے گئے اور لوگوں کی فکری سطح کے مطابق محسوسات کے ذریعے ان کی تربیت ہوئی۔ انسانی فکر کے حد بلوغت تک پہنچنے کے بعد ایک فکری اور مکمل دستور حیات پر مشتمل معجزہ قرآن کی شکل میں دیا گیا۔سابقہ محسوس معجزات کی طرح یہ معجزہ کسی زمانے کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ یہ ایک ابدی معجزہ ہے جو رہتی دنیا تک تمام انسانوں کے لیے ایک چیلنج ہے۔ آج کے محسوس پرستوں کا یہ اعتراض کہ رسولِ کریم ﷺ نے کوئی محسوس معجزہ پیش نہیں کیا، ایسا ہے جیسے کوئی کسی تعلیمی ادارے پر یہ اعتراض کرے کہ ہائی سکول کے لیے نرسری کلاس کا طرز تعلیم کیوں اختیار نہیں کیا جاتا۔ البتہ رسولِ کریم ﷺ نے اپنے زمانے کے محسوس پرستوں کے لیے محسوس (حسیاتی) معجزات بھی دکھائے ہیں۔

کیا معجزات طبیعیاتی قوانین کے دائرے میں وقوع پذیر ہوتے ہیں یا طبیعیاتی قانون کی عام دفعات کے ماوراء میں ہوتے ہیں، اس پر ہم آئندہ بحث کریں گے۔